عالمی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی - ابنا - کی رپورٹ کے مطابق، ایران نے حالیہ عشروں کے دوران سائنس اور ٹیکنالوجی کے مختلف شعبوں میں نمایاں ترقی کی ہے۔ ایرانی محققین نے طب کے شعبے میں، سرطان اور ذیابیطس کے علاج میں پیشرف کے سلسلے میں بڑے قدم اٹھائے ہیں۔ طب اور ٹیکنالوجی کے مختلف شعبوں میں ترقی کے عمل نے بین الاقوامی سطح کی خبر ایجنسیوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی ہے۔ ذیل میں کچھ نمونوں کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے:
طب
ترقی کا ایک شعبہ طب سے تعلق رکھتا ہے، جہاں ایران نے علاج معالجے کے جدید طریقے اور طبی جدید ٹیکنالوجیز دریافت کی ہیں۔ مثال کے طور پر ایرانی سائنسدانوں نے انسولین تیار کرنے کا ایک نیا طریقہ ایجاد کیا ہے جو ذیابیطس کے مریضوں کی زندگی کو بہت بہتر بنا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں، ایرانی محققین نے سرطان (Cancer) کے موذی مرض سے نمٹنے کے لئے اہم اقدامات کئے ہیں اور جدید طریقہ ہائے علاج دریاقت کئے ہیں جو اس وقت پوری دنیا میں مریضوں کی مدد کے لئے استعمال میں لائے جا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر جدید طریقۂ علاج میں کیمیاوی علاج (Chemotherapy) کی دوائیں براہ راست ٹیومر کے خلیات تک پہنچانے کے لئے نینو ذرات (Nanoparticles) کا استعمال کیا جاتا ہے، جس سے روایتی کیمیاوی علاج کے مقابلے میں زیادہ مؤثر اور کم ضمنی اثرات ظاہر ہوئے ہیں۔ علاوہ ازیں ایران دواسازی کی صنعت میں مسلسل ترقی کر رہا ہے جس کی ایک بڑی مثال ان میں سے ایک کوویڈ 19 ویکسین کی تیاری تھی۔
ٹیکنالوجی
ایران کی سائنسی ترقی کا شعبہ ٹیکنالوجی کے شعبے سے تعلق رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر ایران نے یورینیم کی افزودگی کے لئے نئی نسل کے مرکز گریزے (Centrifuges) تیار کئے ہیں نیز میزائل سسٹمز کو ترقی دی ہیں۔ ان جدتوں کے سلسلے میں بی بی سی اور الجزیرہ نے رپورٹیں دی ہیں اور بعض تجزیہ نگاروں نے ایران کی فنیاتی ترقی کو خراج تحسین پیش کیا ہے جو عالمی سطح پر ایران کی طاقت اور اثر و رسوخ کی علامت ہے۔
قابل افزائش نو توانائیاں
قابل افزائش نو (Reproducible) توانائیوں - جیسے شمسی توانائی اور ہوا کی توانائی (Wind power) - کے شعبوں میں اچھی خاصی سرمایہ کاری کی ہے نیز قابل افزائش نو توانائیوں کے ذخیرے اور تقسیم کے لئے نئی ٹیکنالوجیوں کو وسعت دی ہے۔ مثال کے طور پر، ایران نے شمسی توانائی کے کئی عظیم بجلی گھر قائم کئے ہیں اور ہوا کی توانائی کے لئے ایسے نئے ٹربائن (Turbine) تیار کئے ہیں جو روایتی چرخابوں سے زیادہ مفید اور پائیدار ہیں۔
ایرو اسپیس اور میزائل سسٹمز
ایران نے ایرو اسپیس (Aerospace) اور میزائل ٹیکنالوجی میں حیرت انگیز ترقی کی ہے، اب تک پوری کامیابی سے سیارچے خلا میں بھیجے ہیں، زندہ مخلوق خلا میں بھیج کر اتاری ہے، نیز درمیانی اور کم فاصلے پر مار کرنے والے میزائل تیار کرکے بعض مواقع پر استعمال کئے ہیں جس کی وجہ سے غیر دوست ممالک سیخ پا ہوئے ہیں۔ حالانکہ اسلامی جمہوریہ ایران اپنی سلامتی کے دفاع کے لئے ہتھیار بناتا ہے اور اس کی فوجی قوت تسدیدی (Deterrent) ہے، اس کے کوئی جارحانہ مقاصد نہیں ہیں، اور اس کی تمام تر حصول یابیاں پرامن مقاصد کے لئے ہیں۔
جوہری سائنس
ایران نے جوہری سائنس میں بھی اچھی خاصی ترقی کی ہے، اس کے تحقیقات ری ایکٹرز میں مصرف علم ایرانیسائنسدان مغرب اور مشرق کی مدد کے بغیر، جوہری توانائی کی ترقی پر - بطور ذریعۂ توانائی - کام کر رہے ہیں۔ مغربی ممالک نیز ان کے علاقائی ہم نوا - بشمول یہودی ریاست (اسرائیل) – ایران کی اس ترقی سے ناخوش ہیں اور جوہری پیشرفت ایران اور مغرب کے درمیان تناؤ کا سبب بنی ہوئی ہے۔ وہ یہ جانتے ہوئے بھی – کہ اسلامی جمہوریہ ایران جوہری ہتھیار کی تیاری پر یقین نہیں رکھتا اور ان ہتھیاروں کے غیر مفید اور انسانیت دشمن سمجھتا ہے، لیکن پھر دو عشروں سے اپنا جھوٹا دعویٰ مسلسل دہرا رہے ہیں کہ ایران جوہری اسلحہ تیار کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، اور اتنے ہفتوں اور اتنے مہینوں میں جوہری بم بنانے کی صلاحیت حاصل کرے گا! اور یوں سینکڑوں مہینے اور ہزاروں ہزاروں ہفتے گذر چکے ہیں، لیکن وہ اپنا گھسا پٹا دعویٰ ترک کرنے کے روادار نہیں، اور اس کو وسیع پیمانے کی مسلسل پابندیوں کی بنیاد بنائے ہوئے ہیں۔ یہ ظالمانہ پابندیاں ادویات اور کھانے پینے کی اشیاء اور ویکسین تک پر بھی عائد کی جاتی ہیں!
عالمی خبر ایجنسیوں میں ایران کی ترقی کی عکاسی
ایران کی سائنسی ترقی کے مذکورہ بالا چند نمونوں کے علاوہ اس ملک نے دوسرے شعبوں میں بھی ترقی کی ہے جن کی رپورٹیں دنیا کی زیادہ تر خبر ایجنسیوں کا موضوع بنتی رہتی ہیں۔ ان میں سے بعض رپورٹیں غیر ملکی سائنسی خبر ایجنسیوں اور ویب گاہوں میں نشر ہوئی ہیں، جن میں سے بعض حسب ذیل ہیں:
دی نیچر مڈل ایسٹ:
دی نیچر مڈل ایسٹ بین الاقوامی جرید "دی نیچر" کا علاقائی نسخہ ہے؛ جس نے جذعی خلیات (Stem-Cells)، بائیوٹیکنالوجی (Biotechnology) اور ایرانی سیارچوں کے خلا میں بھیجنے، جیسے امور میں ایران کی پیشرفت کی رپورٹیں دی ہیں۔
سائنس ڈیلی:
اس مقبول سائنسی ویب گاہ نے قابل افزائش نو توانائیوں (Reproducible energies)، پانی کی صفائی (Water Treatment) اور سرطان کے سلسلے میں تحقیقات میں ایران کی پیشرفت کے بارے میں رپورٹیں شائع کی ہیں۔
سائنس میگزین:
یہ مشہور سائنسی جریدہ ہے جس نے خلیات جدعیہ، سرطان، نینو ٹیکنالوجی اور جدید ویکسینز کے میں ایران کی پیشرفت کے بارے میں رپورٹیں شائع کی ہیں۔
ریسرچ گیٹ:
یہ سائنسدانوں اور محققین کی سماجی رابطے کی ویب گاہ ہے جس میں بہت سارے ایرانی سائنسدان اور محققین اپنے تحقیقی مقالات اور دریافتوں کو عالمی برادری کے سامنے رکھتے ہیں۔
فزکس ورلڈ:
یہ فزکس انسٹی ٹیوٹ کی اخباری ویب گاہ ہے، جس نے ایران میں شمسی خلیوں میں استعمال ہونے والے جدید مواد کی تیاری، اور سینکروٹرون (synchrotron) کی تابکاری (جو ذرات کی رفتار تیز کرنے کے لئے بروئے کار لائی جاتی ہے) کی جدید تنصیبات کی تعمیر کی بارے میں خبریں شائع کی ہیں۔
سائنس الرٹ:
اس سائنسی ویب گاہ نے پانی صاف کرنے اور معدنیاتی ذخائر دریافت کرنے کے سلسلے میں جدید ایرانی فنیاتی پیشرفت کے بارے میں رپورٹیں دی ہیں۔
نیو سائنٹسٹ:
اس ہفت روزہ رسالے نے تیل کے رساؤ (leakage) سے نمٹنے اور جدیدی معدنی ذخائر دریافت کرنے کے سلسلے میں ایران کی فنیاتی کامیابیوں اور حصول یابیوں پر روشنی ڈالی ہے۔
میڈیکل ایکسپرس:
یہ ویب گاہ طب، صحت اور حفظان صحت سے تعلق رکھتی ہے جس نے جدید حفاظتی ٹیکوں (Vaccines) اور مختلف امراض کے علاج کے لئے خلیاتی طریقۂ علاج (Cells Therapy) کے اثرات کے سلسلے میں ایران کی حصولیابیوں کے بارے میں رپورٹس شائع کی ہیں۔
سائنسی انسٹی ٹیوٹس میں ایران کی سائنسی ترقی کی صدائے بازگشت
ایران کی خاطر خواہ سائنسی ترقی مغرب کے سائنسی انسٹیوٹس کی نظروں سے بھی دور نہیں رہی ہے اور اس کو عام طور پر ان اداروں اور تھنک ٹینکس کی تحقیقات میں زیر بحث لایا جاتا ہے۔ بعض تھنک ٹینکس میں جوہری ٹیکنالوجی، ایرواسپیس، حیاتیاتی ٹیکنالوجی میں ایران کی ترقی کو نمایاں کرتے ہیں اور بعض دوسرے دوسرے شعبوں پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہیں، نیز غیر ملکی تھنک ٹینکس ایران کی سائنسی ترقی کا جائزہ لیتے ہوئے ایران کو درپیش مسائل اور سائنسی ترقی میں حائل رکاوٹوں کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں۔
کارنیگی کارپوریشن (Carnegie Corporation) نے ایران کے جوہری پروگرام پر تحقیق کی ہے اور اس کی ترقی پر مرتب ہونے والے مغربی معاشی پابندیوں کے اثرات کا جائزہ لیا ہے۔
رینڈ کارپوریشن ((RAND Corporation) نے ایران کے ایرواسپیس اور مستقبل میں اس کی ترقی کے امکانات پر تحقیق کی ہے؛ نیز اس تھنک ٹینک میں ایران کو درپیش چیلنجوں اور اس سے نمٹنے میں ایران کی خاطرخواہ کامیابیوں کا جائزہ شائع کیا ہے۔
جیمز مارٹن (James Martin) مطالعاتی مرکز برائے عدم پھیلاؤ نے ایران کے جوہری اور میزائل پروگرام کے بارے میں تحقیقی رپورٹیں پیش کی ہیں۔
دی ہیریٹیج فاؤنڈیشن (The Heritage Foundation) نے ایران کی سائنسی ترقی پر پابندیوں کے اثرات اور ملکی معیشت اور معاشرے پر اس کے ممکنہ اثرات کے بارے میں تحقیقی رپورٹیں شائع کی ہیں۔
دانشوروں کا ووڈرو ولس بین الاقوامی مرکز (Wilson Center) نے ایران کی ایرواسپیس صنعت کی تروی کے سلسلے میں، اور مستقبل میں ممکنہ ترقی پر اس کے اثرات کی جائزہ رپورٹ پیش کی ہے۔
یقینی امر ہے کہ بہت سارے مرکزی تھنک ٹینکس کا مغربی حکومتوں یا صہیونی ریاست سے بلاواسطہ یا بالواسطہ تعلق ناقابل انکار ہے چنانچہ بہت سے مراکز کی رپورٹوں میں سیاسی عنصر کی جھلک دکھائی دے رہی ہے اور یہ رپورٹیں مغربی ممالک کے سرکاری موقف سے متاثر ہیں اور فنیاتی دعؤوں کے برعکس، ان رپورٹوں میں سیاست کا پلڑا بھاری ہے۔
چنانچہ غیر ملکی تھنک ٹینکس کی رپورٹوں میں ایران کی سائنسی ترقی کی عکاسی کی شکل و صورت مختلف ہے۔ کچھ مراکز نے ایران کی سائنسی ترقی کو عالمی سطح پر ایران کی طاقت اور اثر و رسوخ میں اضافے کا سبب گردانا ہے اور کچھ نے اس کو مبینہ طور پر سلامتی کے لئے خطرہ قرار دیا ہے!
مغرب میں کچھ تحقیقاتی مراکز نے واضح کیا ہے کہ ایران کی سائنسی ترقی اس ملک کی ماہر اور تعلیم یافتہ آبادی اور مانے ہوئے سائنسدانوں کی محنت اور تحقیق و ترقی پر بڑھتی ہوئی سرکاری سرمایہ کاری کا نتیجہ قرار دیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امریکیوں کے مقابلے میں قومی وقار کا فقدان:
اگر کوئی امریکی فوجی کسی ایرانی وزیر کو مار دیتا تو ایرانی حکومت اس پر ہاتھ ڈالنے کا حق نہيں رکھتا تھا۔
کاپیٹولیشن قانون (امریکیوں کے لئے قانون سے اسثنی کے قانون) کے تحت، 50 ہزار سے زائد نام نہاد امریکی مشیروں کو عدالتی استثنیٰ حاصل تھا اور ایران کی عدالتوں کو امریکیوں کو طلب کرنے اور پوچھ گچھ کرنے کا حق حاصل نہیں تھا۔
ایران کا علاقائی کردار:
اس وقت کے امریکی صدر جمی کارٹر نے دورہ ایران کے موقع پر کہا تھا: "ہم دنیا میں ایران کے سوا کوئی بھی ایسی سرزمین نہیں جانتے جو اس قدر ہمارے قریب ہو اور اس کے ساتھ علاقائی مسائل میں مسلسل صلاح مشورے کرتے ہوں
شاہ کے دور میں، طے یہ تھا کہ ایران پورے خطے کو امریکہ کے زیر تسلط لائے لیکن کبھی بھی اتنا طاقتور نہ ہو سکا۔
لیکن انقلاب کے بعد اور اسلامی جمہوریہ کے قیام کے بعد ایران نے عراق، شام اور لبنان کی حمایت کرکے قابض قوتوں کو ان ممالک سے نکال باہر کر دیا ہے۔
ایران کا سائنسی رتبہ
شاہ کے زمانے میں ایران دنیا میں 56ویں نمبر پر تھا۔
سنہ 1974 سے سنہ 1976ع تک نہ کوئی پابندی تھی اور نہ ہی مغرب کی دشمنی لیکن ایران سائنسی ترقی کے لحاظ سے 52ویں نمبر پر تھا۔
اسلامی جمہوریہ کے دور میں سائنسی تحقیق کے شعبے کا رتبہ عالمی سطح پر 22 ہے اور سائنسی ترقی کی تیزرفتاری کے لحاظ سے ایران دنیا کا پہلا ملک ہے۔
اشیائے خورد و نوش میں خودکفالت
شاہ کے دور کے سرکاری اعداد و شمار کے لحاظ سے 1977ع میں ایران کی غذائی اشیائے ضرورت کا صرف 9 فیصد حصہ خود پیدا کرتا تھا۔
اسلامی جمہوریہ کے دور میں ایران 82 فیصد اشیائے خورد و نوش خود پیدا کرتا ہے اور پڑوسی ممالک کو بھی برآمد کرتا ہے۔
جمہوریت
شاہ کے زمانے میں نمائشی پارلیمانی انتخابات کا اہتمام کیا جاتا تھا اور زیادہ تر ارکان پارلیمان کو شاہ خود مقرر کرتا تھا۔
جنرل حسین فردوست لکھتا ہے: محمد رضا شاہ نے، اسد اللہ عَلَم کی وزارت عظمی کا دور شروع ہوتے ہی، ایک سہ رکنی کمیشن تشکیل دیا جس کا سربراہ اسد اللہ علم تھا اور میں اور حسن علی منصور اس کے اراکین تھے۔ اس کمیشن پر ارکان پارلیمان کے تعین کی ذمہ داری عائد تھی۔
اسلامی جمہوریہ کے 44 سالہ دور میں آج تک صدر اور ارکان پارلیمان نیز مجلس خبرگان کے ارکان کے انتخاب کے لئے 44 انتخابات کا انعقاد ہو چکا ہے جن میں رائے دہندگان کی اکثریت نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا ہے۔ انتخابات میں مختلف افکار کے حامل کا منتخب ہونا، انتخابات کی شفافیت کا عملی ثبوت ہے۔
طب اور صحت
شاہ کے زمانے میں ایران غیر ملکی ڈاکٹروں کا محتاج تھا اور بھارت، بنگلہ دیش، پاکستان اور دوسرے ایشیائی ممالک سے بڑی تعداد میں ڈاکٹر ایرانی اسپتالوں میں مصروف عمل تھے۔
سنہ 1976ع میں ایرانی کی آبادی تین کروڑ 30 لاکھ تھی اور ملک میں 13000 ڈاکٹر تھے۔
اسلامی جمہوریہ کے دور میں دو لاکھ 20 ہزار ایرانی ڈاکٹر ایرانی اسپتالوں اور نجی ڈسپنسریوں میں مصروف عمل ہیں جن میں سے 37 ہزار سے زائد اسپیشلسٹ اور پوسٹ اسپیشلسٹ ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیروت - لبنان سے، دی کریڈل (The Cradle) آنلائن میگزین
دی کریڈل ایک آن لائن نیوز میگزین ہے جو مغربی ایشیا کی جغ-سیاسی صورت حال کا احاطہ کرتا ہے۔ یہ ایک خودمختار اور غیر سرکاری اور معتبر مجلہ ہے جس نے انقلاب اسلامی کی 44ویں سالگرہ کے موقع پر انقلاب سے قبل اور انقلاب کے بعد کے ادوار کا تقابلی جائزہ لیا ہے۔ یہ جائزہ چھ اہم شعبوں کا احاطہ کرتا ہے اور واضح کرتا ہے کہ پہلوی دور کسی صورت میں بھی اسلامی جمہوریہ کے دور کے ساتھ قابل قیاس نہیں ہے:
1۔ مجموعی قومی پیداوار (GDP) --- پہلوی دور: 80/6 ارب ڈالر | اسلامی جمہوری دور: 939/3 ارب ڈالر
2۔ غربت کی شرح ۔۔۔ پہلوی دور 46 فیصد | اسلامی جمہوری دور: 27 فیصد
3۔ ملکی آمدنی میں تیل کا حصہ --- پہلوی دور: 75 فیصد | اسلامی جمہوری دور: 8 فیصد
4۔ فی 1000 زندہ بچوں کی پیدائش میں شرح اموات --- پہلوی دور: 93/3 اموات | اسلامی جمہوری دور 10/5 فیصد۔
5۔ متوقعہ زندگی (زندگی کی امید) - (life expectancy) --- پہلوی دور: 55/8 سال| اسلامی جمہوری دور: 77/3 سال
۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔
110